Nawab Muzaffar Khan Sadozai


ملتان کا آخری مسلمان حاکم نواب مظفر خان سدوزئی شہید
ملتان کے ممتاز مورخ عمر کمال خان ایڈووکیٹ نے اپنی تصنیف ”نواب مظفر خان سدوزئی شہید اور اس کا عہد“ میں ان کے خاندان کے جدِ امجد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ سرزمین ملتان کے نامور فرزند نواب مظفر خان شہید پٹھانوں کے معروف قبیلے سدوزئی کی شاخ مودود خیل المعروف خان خیل سے تعلق رکھتے تھے۔ سدوزئی قبیلہ درانیوں یعنی ابدالیوں کی سربرآوردہ شاخ ہے۔ اس قبیلہ کے بانی اسد اللہ خان المعروف حضرت سدومیر افغان نواح قندھار میں 18 ذوالحجہ 965ھ کو بمطابق سرمبر 1558 کو پیدا ہوئے۔تذکرہ ملوک میں لکھا ہے کہ ان کے والد ملک صالح درانیوں کی ایک شاخ حبیب زئی کے سردار تھے اسی میں ہی لکھا ہے کہ بچپن سے ہی حضرت سدو میں آثار عقل و رشد و اقبال عیاں تھے۔
حضرت سدو کی غیر معمولی قابلیت، ذہانت، عقلمندی، علم دوستی اور تعلیمات اسلامیہ میں ذوق و رغبت بچپن سے ہی نمایاں تھا۔ آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کے والد نے اس وقت کے بزرگ کامل حضرت سید نجیب الدین رحمة اللہ علیہ کی شاگردی میں دے دیا جو کہ پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور ولایت و تصوف میں بلند مقام رکھتے تھے۔
ملتان کے آخری مسلمان حاکم نواب مظفر خان سدزئی شہید کا ملتان کی مٹی پر قرض ہے کہ انہوں نے سکھوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی اور اپنی اولاد کی جان قربان کر دی سودے بازی نہیں کی۔ حالانکہ سکھوں نے کئی بار ملتان پر حملے کئے اور ہر بار پسپا کر دئیے گئے۔ ہمیشہ بدقسمتی رہی کہ ہر کامیاب حکمران کے ساتھ غداری ہوئی۔ کتاب رنجیت سنگھ صفحہ 151 ازسر لیپل گرفن ترجمہ مولوی نذر حسین فاروقی مطبوعہ حیدر آباد دکن لکھتے ہیں نواب کی فوج نے سکھوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فوج میںزیادہ تر نواب کے قبیلے اور خاندان کے لوگ شامل تھے۔ اٹھارہ سو آدمی مارے گئے اور کچھ لوگ غداری کر کے دشمنوں سے جا ملے کیونکہ انہیں اپنے آقا کا ساتھ چھوڑنے کے لئے بہت کچھ رشوت دی گئی۔ عبدالصمد تو شروع سے مہاراجہ کی ناک کا بال بنا ہواتھا۔ اب وہ مہاراجہ کی فوج میں شامل ہو کر نواب مظفر خان سے لڑ رہا تھا۔
نواب مظفر خان سدوزئی شہید کے مورث اعلیٰ خان سدو تھے اور اسی نسبت سے یہ خاندان سدوزئی کہلاتا ہے۔ سدو خان کا اصل نام سردار خان تھا۔ان کے والد نے کسی مجذوب فقیر کے ارشاد پر یہ نام رکھا تھا۔ بعد میں سدو خان مشہور ہو گیا۔ سدو خان ابتداءہی سے نہایت ہونہار‘ قابل فہم اور مدبر تھا۔ اس کے درست کردار او رسچائی کا شہرہ دور دور تک پہنچا تو شاہ ایران نے اپنے حضور طلب کر کے مصاحب خاص مقرر کیا اور دو سال کے بعد نوازش شاہی و الطاف خسروانہ سے سرفراز کر کے سلطان کا خطاب عطا فرمایا اور قندھار کی صوبیداری اس کے سپرد کر دی۔سدو خان کی اولاد سے چوتھی پشت میں نواب زاہد خان نہایت قابل حلیم البطع اور فاضل شخص پیدا ہوا۔ اپنی قابلیت اور ذہانت کی وجہ سے وہ 1738 میں ملتان کا نواب مقرر ہو گیا۔ زاہد خان 1748 میں فوت ہوا۔ 1757 میں مرہٹوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا اور احمد شاہ ابدالی نے قبضہ چھڑا لیا اور زاہد خان کے دوسرے بیٹے شجاع خان کو ملتان کی نوابی سونپ دی۔ نواب شجاع نے ملتان سے 23 میل جنوب کی طرف ایک قلعہ بنایا جو آج بھی اپنی حیثیت میں تاریخی گواہی دے رہا ہے جس کا نام شجاع آباد قلعہ پڑ گیا۔ شجاع خان 1773 میں فوت ہو گیا اور 1779 میں اس کے بیٹے مظفر خان کو تیمور شاہ نے نواب رکن الدولہ کا خطاب دے کر ملتان کا نواب مقرر کر دیا۔ 1779 سے 1818 تک نواب مظفر خان سدوزئی ملتان کا حکمران رہا۔ اس نے بہت سی مشکلات کا سامنا ڈٹ کر کیا۔ اپنے غدار ہو گئے لیکن نواب مظفر ثابت قدم رہے۔ نواب مظفر سدوزئی شہید کی عملداری کی شمالی مشرقی حد پاکپتن تھی جو دریائے راوی کے ساتھ ساتھ تلمبہ تک چلی آتی تھی۔ جنوب مغرب میں پنجند‘ جلال پور پیروالا اور آدم واہن تک حکام ملتان کا عمل دخل تھا۔ مظفرگڑھ نواب مظفر کے نام پر رکھا گیا۔ اس کے ساتھ خان گڑھ کھچی جنوبی اور سندھ چناب کے مابین زیریں علاقہ تھا جس میں سیت پور اور علی پور کے علاقے شامل تھے۔ نواب مظفر خان سدوزئی نے نظام حکومت نہایت احسن طریقے سے سنبھالا۔ تعلقہ جات کے افسر اعلیٰ کا نام کاردار ہوتا تھا جو اپنے حدود میں انتظامی امور بھی سرانجام دیتا تھا اور مال گزاری بھی وصول کرتا تھا۔ محکمہ فوجداری بالکل جدا قائم کیاگیا۔ جرائم کے سدباب کے لئے ملتان اور اردگرد کے علاقے میں کوتوال مقرر کئے جو شرع محمدی کے مطابق تنازعات طے کرتے تھے۔ آخری اپیل نواب خود سماعت کرتے تھے۔ اسی طرح آبپاشی و زراعت‘ عسکری نظام اور تعمیرات میں نواب کے دور کی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر اولیاءاللہ کے مقبرہ جات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔ اس کے مزار کو گرا کر عام قبروں کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ نواب مظفر خان شہید 2 جون 1818 رجب 1233 کی تین شبانہ روز کی جنگ اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے لقمہ اجل بنا دیا گیا۔ آخری دم تک اس کی زبان پر کلام ربانی کی آیت کریمہ جاری تھی جس کا ترجمہ ہے کہ ”اے میرے رسول! ان سے کہہ دو کہ نفس پرستو! جس موت سے تم اس قدر بھاگتے ہو‘ وہ تمہیں چھوڑ نہ دے گی ایک دن ضرور آئے گی پھر تم اس خدا کی طرف لوٹ جا¶ گے جو پوشید اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے“ ۔ نواب نے کہا کہ میں مہاراجہ کی پناہ پر خدا کی پناہ کو ترجیح دیتا ہوں اور اپنی جان قربان کر دی۔ نواب مظفر خان کا مزار حضرت بہا¶الدین زکریا ملتانیؒ کی خانقاہ میں داخلی دروازہ کے عین سامنے واقع ہے۔تاریخ کے اوراق کی سرگردانی کی جائے تو نواب مظفر خان سدروزئی کے اوصاف حمیدہ بے شمار ملیں گے۔ لیکن آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں کوئی فرد ایسا نہیں ملتا جو ان کے نقش قدم پر چلے یا ان کے کارناموں کو منظر عام پر لائے۔ حکومتی تعلیمی ادارے ایسے جلیل القدر حکمرانوں کی سوانح حیات اور کارنامے نصاب میں شامل کرے تاکہ نئی نسل نڈر سیاسی سلطان ٹیپو شہید‘ جری بہادر محمد بن قاسم‘ بے شاک سپہ سالار طارق بن زیاد‘ حوصلہ مند خالد بن ولید۔ ان کے کارناموں سے متعارف ہو۔ان شہدا کے یوم شہادت پر ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں ان کے کارناموں اور شخصیات پر روشنی ڈالی جائے ان کے خستہ حال مزار کی مرمت کرائی جائے لیکن افسوس صد افسوس ہم اپنے اسلاف اور ان کی بے شمار جرا¿ت اور کارناموں کوفراموش کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم پستی کا شکار ہیں...

Comments

Popular posts from this blog

Darood-e-Awaisiya (Ashiq e Rasool Hazrat Owais Qarni (RA) )

عید گاہ ما غریباں کوئے تو انبساط عید دیدن روئے توصد ہزاراں عید قربانت کنم اے ہلالِ ما خمِ ابروئے تواے میرے محبوب میری عیدگاہ تو تیرا کوچہ ہےاور میری عید تو بس تیری اِک نظر میں پوشیدہ ہے میں اس جیسی ہزاروں عیدیں تیرے اَبرو کے صرف ایک خم پر قربان کر دوں كلام حضرت خواجہ امیر خسرو رحمتہ الله تعالى عليہعلاج کی نہیں حاجت دل و جگر کے لئیےبس تیری اک نظر کافی ہے عمر بھر کے لیئے💚💚💚💚💚